Posts

والدین کی قدر

والدین کی قدر ایک روز قبل میں حسب معمول اپنے دفتر میں بیٹھا کام میں مصروف تھا کہ ایک انجان باوردی نوجوان آکر سامنے صوفہ پر بیٹھ گیا اور کچھ ہی لمہوں میں مجھ سے مخاطب ہوا "بوس ماپیاں دی خدمت کیتی اے" میں نے مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں شرمندہ ہوتے ہوئے کہا کہ کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں دیا آفس میں کام اور گھر جا کر موبائل یا کمپیوٹر بس یہی معمول ہے تو پھر وہ نوجوان دوبارہ مخاطب ہوا "اوناں دی دعاواں نال ای ایتھے سکون چے بیٹھاں ایں" میں دل ہی دل میں مزید نادم ہوا کہ میں نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا ماں باپ کی خدمت تو بہت بڑا لفظ ہے فرمانبرداری کے معاملے میں بھی میں کتنا کمزور ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے اس لمہے یہ بھی احساس ہوا کہ الحمداللہ اللہ نے مجھے بہت بہتر روزگار ادا کیا ہے واقع ہی بہت لوگوں سے سکون میں ہوں جبکہ میں شکر بجا نہیں لاتا، اس طرح میں اپنے والدین کا مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے رب کا مجرم ہونے کا بھی مرتکب ہورہا ہوں؛ اسی دوران مجھے پتہ بھی نہیں لگا کہ وہ کب دفتر سے چلا گیا، اس مختصر ملاقات نے میں ایک توجہ طلب پیغام تھا ناجانے وہ فرشتہ صفت انسان تھا یا انسان کے ر...

آسیہ مسیح فیصلے کی حقیقت

عدالت عظمٰی (سپریم کورٹ) کے فیصلے کے مطابق جسٹس ثاقب نثار کے مؤقف کا مختصر خلاصہ: گواہان کے بیانات میں جزوی تضاد پایا جاتا ہے؛ جبکہ ماورائے عدالت اعتراف جرم کی عین تفصیلات نہ ہونے کی وجہ سے اور اس میں دباؤ کے امکان ہونے کی وجہ سے ثبوت کے طور پر نہ قابل قبول ہے؛ مزید ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر بھی شکوک کو جنم دیتی ہے؛ فوجداری مقدمات میں ملزم پر بغیر کسی شک و شبہ کے الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ یعنی شکایت دہندہ پارٹی کی ہے؛ اگر مدعی پارٹی بلا کسی شک و شبہ کے الزام ثابت نہیں کر پاتی تو ملزم کو شک کا فائدہ دینا ایک مانا ہوا اصول ہے؛ چونکہ اس مقدمہ میں مدعی پارٹی الزام کو بغیر شک و شبہ کے ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہوئی ہے لہذا ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے تمام الزامات سے بری کیا جاتا ہے اور اگر وہ کسی دیگر مقدمے میں مطلوب نہ ہے تو اسے فوری طور پر رہائی دی جائے اب ملاحظہ ہو چند ثابت شدہ باتیں جو اسی فیصلے میں صاف ظاہر ہیں: گواہان اور الزام علیہ کا فالسہ کے کھیت میں موجود ہونا؛ ان کے درمیان کسی قسم کی بحث کا ہونا جس میں بعض تلخ الفاظ کا تبادلہ ہونا؛ گواہان کا قاری سالم کو ...

Brotherhood: The concept of Nation in Islam

         Brotherhood: The concept of Nation in Islam Taran-e-Milli is a poem written by Allamah Muhammad Iqbal(May Allah have mercy on him) in praise of Muslim Ummah. One of the primary message of this poem lies in the fact that around the time Allama Iqbal(May Allah have mercy on him) written this Tarana-e-Milli his worldview had changed dramatically from the previous one when he had written Tarana-e-Hindi praising his homeland Indian subcontinent, now he viewed Muslim Ummah(Global Islamic community) above all and disapproved nationalistic world view, and this message is reflected all over the poem. He reflected that Muslims are members of one nation regardless of there physical location. And this is what should be the attitude of every Muslim, he should regard himself above all a Muslim, regardless of his physical location. No matter which country we live in, first and foremost we are Muslims, and then Pakistani, Afghani, Turki...

ایک المیہ (فرقہ بازی کا بڑھتا ہوا ناسور)

ایک المیہ (فرقہ بازی کا بڑھتا ہوا ناسور) یہ بات امّت کے لیے ایک المیہ ہے کہ آج ہم فرقہ بازی میں بری طرح الجھ کر رہ گۓ ہیں. بجاۓ اس کے کہ ہم مشترقات کی بنیاد پر ہی متحد ہو جایں، آج ہم ایک دوسرے سے اختلاف اور تنقید کے لیے ایسے مسائل تلاشتے اور چھیڑتے ہیں جن میں اختلاف ہو سکے اور تنقید کا موقع میسّر آ سکے اور پھر تنقید بھی "تنقید براۓ تنقید" کی سی بن کر رہ گئی ہے نہ کہ تنقید براۓ اصلاح. ہر فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص خود کو بہت افضل اور دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو انتہائی حقیر سمجھتا ہے. آج ہم بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث وغیرہ ہونے پر تو فخر کرتے ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ ہمیں اپنی مسلمانیت پر ناز نہیں. شاید ایسی ہی بات پر علامہ اقبال رحمة الله عليه نے فرمایا تھا:  یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو                                     تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھ...

لبرل ازم کا بھوت

                                    لبرل ازم کا بھوت اس ملک میں کسی اور فیصلے (یا قانون) پر عمل ہو نہ ہو، لیکن یوں لگتا ہے کے حکومت (بشمول اسٹیبلشمنٹ) نے ملک کو لبرل بنانے کا نہ صرف فیصلہ (کر لیا ہے) بلکہ اس سلسلے میں عمل درامد ہوتا بھی نظر آتا ہے۔ ﻟﺒﺮﻝ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻧﻌﺮﮦ، وزیراعظم کی دیوالی کی تقریب میں شمولیت، تبلیغی جماعت پر تعلیمی اداروں میں پابندی، ﺳﻮﺩ ﮐﯽ ﺗﺸﮩﯿﺮ، ﯾﻮﻡ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ، مجاہدین کشمیر کی کڑی نگرانی اور گرفتاریاں ، ﻟﻔﻆ ﺧﻼﻓﺖ ﭘﺮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭﯼ، تحفّظ خواتین کے نام پر اسلام کے اصولوں کے منافی ﺑﻞ ﮐﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭﯼ ، اور ایک سچے عاشق رسول پھانسی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ ابتداۓ لبرل ازم ہے، روتا ہے کیا                                آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا            ...