والدین کی قدر


والدین کی قدر

ایک روز قبل میں حسب معمول اپنے دفتر میں بیٹھا کام میں مصروف تھا کہ ایک انجان باوردی نوجوان آکر سامنے صوفہ پر بیٹھ گیا اور کچھ ہی لمہوں میں مجھ سے مخاطب ہوا "بوس ماپیاں دی خدمت کیتی اے" میں نے مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں شرمندہ ہوتے ہوئے کہا کہ کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں دیا آفس میں کام اور گھر جا کر موبائل یا کمپیوٹر بس یہی معمول ہے تو پھر وہ نوجوان دوبارہ مخاطب ہوا "اوناں دی دعاواں نال ای ایتھے سکون چے بیٹھاں ایں" میں دل ہی دل میں مزید نادم ہوا کہ میں نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا ماں باپ کی خدمت تو بہت بڑا لفظ ہے فرمانبرداری کے معاملے میں بھی میں کتنا کمزور ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے اس لمہے یہ بھی احساس ہوا کہ الحمداللہ اللہ نے مجھے بہت بہتر روزگار ادا کیا ہے واقع ہی بہت لوگوں سے سکون میں ہوں جبکہ میں شکر بجا نہیں لاتا، اس طرح میں اپنے والدین کا مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے رب کا مجرم ہونے کا بھی مرتکب ہورہا ہوں؛ اسی دوران مجھے پتہ بھی نہیں لگا کہ وہ کب دفتر سے چلا گیا، اس مختصر ملاقات نے میں ایک توجہ طلب پیغام تھا ناجانے وہ فرشتہ صفت انسان تھا یا انسان کے روپ میں فرشتہ جسے اللہ نے مجھے احساس دلانے کے لیے بھیجا لیکن میری ایک بہت بری عادت ہے کہ میں باتیں بہت جلدی بھول جاتا ہوں اللہ کرے یہ بات میں کبھی نہ بھولوں۔ آمین
غالباً یہ حال بہت سے لوگوں کا ہے کہ ہم زندگی کی مصروفیتوں میں نہ تو والدین کا خیال کرتے ہیں نہ ہی اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے طرز عمل کو بدلیں۔

Comments

Popular

آسیہ مسیح فیصلے کی حقیقت