آسیہ مسیح فیصلے کی حقیقت
عدالت عظمٰی (سپریم کورٹ) کے فیصلے کے مطابق جسٹس ثاقب نثار کے مؤقف کا مختصر خلاصہ: گواہان کے بیانات میں جزوی تضاد پایا جاتا ہے؛ جبکہ ماورائے عدالت اعتراف جرم کی عین تفصیلات نہ ہونے کی وجہ سے اور اس میں دباؤ کے امکان ہونے کی وجہ سے ثبوت کے طور پر نہ قابل قبول ہے؛ مزید ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر بھی شکوک کو جنم دیتی ہے؛ فوجداری مقدمات میں ملزم پر بغیر کسی شک و شبہ کے الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ یعنی شکایت دہندہ پارٹی کی ہے؛ اگر مدعی پارٹی بلا کسی شک و شبہ کے الزام ثابت نہیں کر پاتی تو ملزم کو شک کا فائدہ دینا ایک مانا ہوا اصول ہے؛ چونکہ اس مقدمہ میں مدعی پارٹی الزام کو بغیر شک و شبہ کے ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہوئی ہے لہذا ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے تمام الزامات سے بری کیا جاتا ہے اور اگر وہ کسی دیگر مقدمے میں مطلوب نہ ہے تو اسے فوری طور پر رہائی دی جائے اب ملاحظہ ہو چند ثابت شدہ باتیں جو اسی فیصلے میں صاف ظاہر ہیں: گواہان اور الزام علیہ کا فالسہ کے کھیت میں موجود ہونا؛ ان کے درمیان کسی قسم کی بحث کا ہونا جس میں بعض تلخ الفاظ کا تبادلہ ہونا؛ گواہان کا قاری سالم کو ...